ایک بکری کا انوکھا بدلہ (عدین شمسی لاہور)
اس نے کہا میں تو نہیں پہچانتی انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں ‘دودھ اور بکری والا۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا‘اور کہا کہ کیا اللہ کی قسم تم وہی ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہی ہوں۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس کیلئے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں۔
ابوالحسن مدائنی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ حج کیلئے تشریف لے جارہے تھے راستے میں سامان کے اونٹ جدا ہوگئے اور یہ بھوکے پیاسے چلنے لگے۔ ایک خیمہ پر گزر ہوا اس میں ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی۔ انہوں نے بڑھیا سے پوچھا کہ ہمارے کھانے پینے کو کوئی چیز تمہارے پاس ہے؟ اس نے کہا ہاںہے ‘یہ لوگ اپنی سواریوں سے اترے۔ اس بڑھیاکے پاس معمولی سی بکری تھی اس کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی کہ اس کا دودھ نکال لو اور تھوڑا تھوڑا پی لو۔ انہوں نے اس کا دودھ نکالا اور پی لیا۔ پھر ان حضرات نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ہے؟ اس بڑھیا نے کہا یہی بکری ہے تم میں سے کوئی ذبح کردے تو میں پکادوں۔ انہوں نے اس بکری کو ذبح کیا اور بڑھیا نے پکایا۔ یہ حضرات کھاپی کر جب شام کو چلنے لگے تو انہوں نے بڑھیا سے کہا کہ ہم ہاشمی لوگ ہیں۔ ابھی حج کے ارادے سے جارہے ہیں اگر ہم زندہ سلامت واپس مدینہ پہنچ گئے تو تو ہمارے پاس آنا تیرے اس احسان کا بدلہ دینگے۔ یہ حضرات تو فرما کر چلے گئے۔ شام کو جب اس کا خاوند (جنگل وغیرہ) سے واپس آیاتو بڑھیا نے ان ہاشمی لوگوں کا واقعہ سنایا اس کا خاوند بہت خفا ہوا کہ تو نے اجنبی لوگوں کے واسطے بکری کر ڈالی۔ معلوم نہیں کون تھے کون نہیں تھے پھر کہتی ہے کہ ہاشمی تھے“ غرض خاوند خفا ہوکر چپ ہوگیا۔
کچھ زمانہ کے بعد ان میاں بیوی کو غربت نے جب تنگ کیا تو دونوں میاں بیوی محنت مزدوری کی نیت سے مدینہ منورہ گئے۔ دن بھر مینگنیاں چگا کرتے اور ان کو بیچ کر گزارہ کرتے۔ ایک دن وہ بڑھیا مینگنیاں چگ رہی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے دروازے کے آگے تشریف رکھتے تھے جب یہ وہاں سے گزری تو اس کو دیکھ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پہچان لیا اور اپنے غلام کو بھیج کر اس کو اپنے پاس بلوایا اور فرمایا کہ ”اری اللہ کی بندی تو مجھے پہچانتی ہے؟ اس نے کہا میں تو نہیں پہچانتی۔
انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں ‘دودھ اور بکری والا۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا۔ اور کہا کہ کیا اللہ کی قسم تم وہی ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہی ہوں۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس کیلئے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں۔ چنانچہ فوراً خریدی گئیں اس کے علاوہ ایک ہزاردینار نقد بھی عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ساتھ اس بڑھیا کو اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ بھائی نے کیا دیا؟ اس نے کہا ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دینا یہ سن کر اتنی ہی مقدار حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بڑھیا کو مرحمت فرمائی۔ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بڑھیا کو عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے تحقیق کی کہ ان دونوں حضرات نے کیا مرحمت فرمایا؟ معلوم ہونے پر انہوں نے 2 ہزار بکریاں اور 2 ہزار دینار اس کو عطا فرمائے اور فرمایا اگر تو تھوڑی دیر پہلے آتی تو اس سے بہت زیادہ دیتا۔
یہ بڑھیا 4 ہزار بکریاں اور 4 ہزار دینار لے کر خاوند کے پاس پہنچی کہ یہ اس ضعیف اور کمزور بکری کا بدلہ ہے۔
کسان کی ہوشیاری
گاوں میں رحمت کا ایک چھوٹا سا‘ پیارا سا گھر تھا۔ وہ کسان تھا۔ اس کا ایک باغ تھا۔ باغ کے آخری کونے میں ایک بہت گہرا کنواں تھا۔ بے چارہ کسان پانی کھینچتا اور پھر اس سے باغ کے پودوں کو سیراب کرتا تھا۔
ایک سال بالکل بارش نہیں ہوئی۔ سورج بہت گرم تھا۔ کسان نے اپنے باغ کی طرف دیکھا اور کہا: ”اگر پانی نہ ملا تو میرے پودے مرجائیں گے۔
مجھے ان کو پانی ضرور دینا چاہیے‘ لیکن پانی تو اب بہت گہرائی میں اتر گیا ہے۔ میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں اور موٹا بھی۔ بہت محنت کا کام ہے‘ مجھے کیا کرنا چاہیے۔“
یہ سوچتا ہوا وہ سڑک کے کنارے بنی ہوئی چار دیواری تک آگیا۔ وہ تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہی تھا کہ اس کے کان میں کھسر پھسر کی آواز آئی۔کوئی اس کا نام لے رہا تھا۔
کسان کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ غور سے ان کی باتیں سننے لگا۔ وہ دونوں باغ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے کسان کو نہیں دیکھا تھا۔
ایک آدمی نے کہا :”رحمت اور اس کی بیوی ٹھیک نو بجے سونے کےلئے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں کم از کم دو گھنٹے اور انتظار کرنا چاہیے‘ پھر گیارہ بجے ہم دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ بنالینگے۔ اس سوراخ سے گزر کر میرا چھوٹا بیٹا اندر جائےگا اور دروازہ کھول دےگا۔“
اس کے ساتھی نے پوچھا:”کیا رحمت کے پاس بہت ساری دولت ہے؟“دوسرے آدمی نے جواب دیا اس کے پاس بہت سارا سونا اور ہیرے جواہرات ہیں۔ پہلے نے خوش ہوکر کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
رحمت گھر چلا گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا : ”آج رات ہم ٹھیک نو بجے کھانا کھائیںگے۔“ اس نے اپنا سارا روپیہ‘ سونا اور ہیرے جواہرات اکٹھے کیے اور انہیں اپنے پلنگ کے نیچے چھپا دیا۔ پھر وہ کچھ پتھر گھر میں لایا اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ رحمت نے چوروں کی آہٹ سن لی تو وہ زور زور سے اپنی بیوی سے باتیں کرنے لگا ”میں نے سنا ہے آج کل بہت چوریاں ہورہی ہیں۔ اس علاقے میں بھی کچھ چور آگئے ہیں۔ اس نے میرے دوست علی کا سارا سونا اور جواہرات چرالیے ہیں۔“ ہمیں اپنا سونا اور ہیرے جواہرات کسی ایسی جگہ چھپادینے چاہئیں جہاں سے کوئی انہیں نکال نہ سکے۔ ذرا میرا صندوق تو لانا“اس نے اتنی صفائی سے صندوق میں پتھر رکھے کہ چور دیکھ ہی نہیں سکے۔ اس نے اپنی بیوی کی مدد سے صندوق کو اٹھایا اور گھر سے باہرکنویں میں پھینک دیا۔ پھر وہ گھر کے اندر چلے گئے اور انتظار کرنے لگے۔
پہلا چور بولا: انہوں نے اپنا سونا اور ہیرے کنویں میں چھپا دئیے ہیں۔ وہ بہت جلد سوجائیں گے۔ رحمت نے چپکے سے کھڑکی سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ چور کنویں کے پاس کھڑے تھے۔پہلا چوربولا: ہمیں کنویں کا پانی نکالنا چاہیے ویسے بھی قحط کا موسم ہے زیادہ پانی نہیں ہوگا‘ جب پانی کم ہوگا میں کنویں کے اندر اترونگا اور صندو ق نکال لونگا۔انہوں نے کنویں سے پانی نکالنا شروع کردیا۔ ایک چور پانی کھینچتا اور دوسرا اسے باغ میں جانے والی نالی میں ڈال دیتا۔ وہ پوری رات پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ مگر وہ ابھی تک مصروف تھے۔
کسان نے کھڑکی کھولی اور چلایا: بہت بہت شکریہ! میرے دوستو! تم نے میرے باغ کو سیراب کردیا۔ صندوق پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ پولیس کے سپاہی آرہے ہیں‘ اللہ حافظ میرے دوستو! تمہارا ایک بار پھر شکریہ۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 538
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں